تحریر : مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| تاریخ محض ماضی کے واقعات کا مجموعہ نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے ایک آئینہ ہے، جس میں حال اور مستقبل کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ ہمیں نہ صرف ماضی کی کامیابیوں سے حوصلہ لینے بلکہ ناکامیوں سے سبق سیکھنے کی دعوت دیتی ہے۔ شام کی حالیہ پوزیشن ایک ایسا سبق ہے جو صرف اس کے عوام کے لیے نہیں، بلکہ دنیا بھر کے ان لوگوں کے لیے بھی اہم ہے جو آزادی، امن اور استقامت کے قائل ہیں۔
یہ خطہ جو کبھی تاریخ کی مختلف تہذیبوں کا مرکز رہا، آج بدامنی، دہشت گردی اور عالمی سیاست کے جال میں پھنس کر زخم خوردہ ہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہو جاتا ہے: ہم نے ماضی سے کیا سیکھا؟ اور ہمیں حال میں کیا کرنا چاہیے تاکہ مستقبل کا نقشہ بہتر ہو؟ شام کے المیے کو سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات اہم ہیں:
1. قدرِ امن کی ناقدری اور اس کے نتائج
امن کسی بھی قوم کا سب سے بڑا اثاثہ ہے؛ لیکن جب عوام اس نعمت کی اہمیت کو فراموش کر دیں تو وہ خود کو تباہی اور بدامنی کے دہانے پر کھڑا پاتے ہیں۔ شام میں بھی یہی ہوا۔ عوام نے اپنے داخلی معاملات میں بصیرت کا مظاہرہ نہیں کیا اور بیرونی قوّتوں کو اپنے معاملات میں مداخلت کا موقع دیا، جس کا نتیجہ آج کے بحران کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
2. کامیاب معاشرے کے تین ستون
ہر کامیاب معاشرے کی بنیاد تین اہم ستونوں پر ہوتی ہے:
قیادت: ایک مضبوط، باصلاحیت اور منصف قیادت جو قوم کی رہنمائی کرے
نظریہ: ایسا نظام اور قوانین جو عقل اور وحی دونوں پر مبنی ہوں۔
متحد عوام: باشعور اور متحد عوام جو اپنی قیادت کے ساتھ کھڑے ہوں۔
شام میں ان تینوں ستونوں میں کمزوری نے جڑیں پکڑیں، جس کا فائدہ دشمن قوّتوں نے اٹھایا۔
3. مغرب پر اعتماد کا انجام
تاریخ گواہ ہے کہ مغرب اور استکباری طاقتوں پر اعتماد ہمیشہ تباہی کا سبب بنتا ہے۔ بشار الاسد اور شامی عوام نے عالمی طاقتوں سے بہتر تعلقات کے خواب میں اپنی زمین، معیشت اور امن سب کچھ کھو دیا۔ یہ سبق ہمیں بتاتا ہے کہ جو قوم اپنی آزادی کا سودا کرتی ہے، وہ عزت اور وقار سے محروم ہو جاتی ہے۔
4. عوام کی بصیرت اور ذمہ داری
کسی بھی قوم کی کامیابی میں عوام کا کردار اہم ہوتا ہے۔
انتخابات: صحیح قیادت کا انتخاب عوام کی اوّلین ذمہ داری ہے۔
مطالبہ: مسائل کے حل کے لیے معقول، مناسب اور مؤثر مطالبہ کرنا ضروری ہے۔
شام کے عوام نے ان دونوں محاذوں پر غلطیوں کا ارتکاب کیا، جس سے داخلی انتشار پیدا ہوا اور دشمن قوّتوں کو مداخلت کا موقع ملا۔
5. اطلاعات کی تصدیق اور بیانیے کی جنگ
موجودہ دور کو "بیانیے کی جنگ" کہا جاتا ہے۔ جنگیں اب صرف میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ میڈیا اور پروپیگنڈے کے ذریعے بھی لڑی جا رہی ہیں۔ شام کے بحران میں بھی یہی ہوا۔ بغیر تحقیق کے غلط معلومات کی تشہیر نے دشمن کو مضبوط کیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کر لیا کرو۔ (الحجرات/ 6)
6. مدافعانِ حرم کا مشن
مدافعانِ حرم نے شام کی سرزمین پر نہ بشار الاسد کے لیے قدم رکھا اور نہ کسی سیاسی مفاد کے لیے۔ وہ حق کی حمایت اور استکبار کے خلاف جدوجہد کے لیے نکلے تھے۔ ان کی قربانیوں کو ان کے اصل مقصد سے جوڑنا ضروری ہے تاکہ یہ کہا جا سکے کہ ان کا خون کبھی ضائع نہیں گیا۔
7. طاقت کی بنیاد: ایمان اور استقامت
اسلام اور مقاومت کی اصل طاقت کسی شخص یا ملک پر منحصر نہیں بلکہ یہ ایمانِ محکم اور استقامت پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
"اور نہ کمزور پڑو اور نہ غم کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مؤمن ہو۔" (آل عمران/ 139)
یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کامیابی کا راز خدا پر یقین اور مسلسل جدوجہد میں ہے، نہ کہ دنیاوی طاقتوں کے سہارے میں۔
8. دشمن کے نفوذ سے ہوشیاری
دشمن کا اصل ہتھیار نفوذ، تزویر اور تخریب ہے۔ شام میں بھی دشمن نے داخلی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر انتشار کو ہوا دی۔
یہ سبق ہر قوم کے لیے ہے کہ وہ اپنے ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی محاذوں پر چوکنا رہے۔
9. مقاومت کے اخراجات اور فائدے
مقاومت کے لیے جان و مال کی قربانی دینا کبھی ضیاع نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسا سودا ہے جس کے دونوں پہلو کامیابی ہیں: یا دشمن کی شکست یا شہادت کا مقام۔ قرآن میں ارشاد ہے:
کہہ دیجئے: کیا تم ہمارے بارے میں دو بھلائیوں (فتح یا شہادت) میں سے ایک ہی کے منتظر ہو؟ (التوبہ/ 52)
یہی فلسفہ مقاومت ہے جس نے ہر مقام پر امید کا دیا جلائے رکھنا ہے۔
10. غرور اور مایوسی دونوں سے بچاؤ
کامیابی کے نشے میں غرور اور ناکامی کی صورت میں مایوسی دونوں ہی خطرناک ہیں۔ قرآن کہتا ہے: پس (اے نبی) آپ صبر کریں، یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ آپ کو سبک نہ پائیں۔ (الروم/ 60)
شامی بحران نے دکھایا کہ جو قوم صبر اور امید کا دامن تھامے رکھتی ہے، وہی فتح مند رہتی ہے۔
11. دشمن کی حقیقت شناس
دشمن کو کمزور سمجھنا اور خود کو ناکافی سمجھنا دونوں ہی نقصانات کا سبب بنتے ہیں۔ مقاومت کا فلسفہ یہ ہے کہ دشمن کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے خلاف متحد اور مضبوط رہا جائے۔
12. کلیدی مسائل پر توجہ
ذاتی یا غیر اہم معاملات میں الجھنا اور بڑے قومی یا مذہبی امور کو نظر انداز کرنا، دشمن کے لیے نفوذ کا موقع فراہم کرتا ہے۔ شام کی مثال واضح کرتی ہے کہ اگر قوم اپنی ترجیحات کو درست نہ کرے تو انتشار اور بدامنی اس کا مقدر بن جاتے ہیں۔
آخر میں:
شام کی موجودہ صورتحال ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قومیں تاریخ کے صفحات پر اپنے عمل سے زندہ رہتی ہیں۔ اس کا درس یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھیں، قیادت، اتحاد اور بصیرت کو مضبوط کریں اور دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ہمیشہ چوکنا رہیں۔ اللہ کا وعدہ ہے:
اور اللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا جو اس کی مدد کرے گا۔ (الحج/ 40)
یہی ایمان و استقامت، مقاومت کی کامیابی کا راز ہے۔
آپ کا تبصرہ